استغاثہ(بحضور امام عصر عج)

بے سود رنگ و بو کے تماشے ترے بغیر
بے جان ہیں یہ پیار کے چرچے ترے بغیر

دنیا اسیربے سرو سامان ہے ہنوز
بے رنگ ہیں فلک پہ ستارے ترے بغیر

سب انتشار اور پراکندگی میں ہیں
ہنگامہء جہاں کے فسانے ترے بغیر

منبر بھی ،مدرسے بھی ہیں واعظ بھی ہیں مگر
ناپید ہیں وفا کے سلیقے ترے بغیر

لہجوں میں واعظوں کے نہ سوزو گداز ہے
بیٹھے ہیں مل کے خلد کمانے ترے بغیر

اے نافذ شریعت پرور دگار آ
تاریک ہیں یہ دن کے اجالے ترے بغیر

آ پھر جلا دلوں میں محبت کی روشنی
گذرے ہیں نفرتوں کے زمانے ترے بغیر

خمار تومیلی

Read More

نذرانہ عقیدت

سنو جہان کے یہ پیچ وخم نہیں ہوتے
اگر حسین نہ ہوتے تو ہم نہیں ہوتے

اگر نہ کرتا خدا علم کے دیۓ روشن
جہالتوں کے یہ پردے بھی کم نہیں ہوتے

انہے کتاب سے ملتی نہیں ہے راہ نجات
جو بحر کرب وبلا میں بھی ضم نہیں ہوتے

کہا یہ دین نے بے رنگ و بو میں ہو جاتا
رسول ہوتے اگر ابنِ عم نہیں ہوتے

یہ جانتے ہیں زمانے کے ظالم و جابر
جلا کے گھر کبھی عشاق کم نہیں ہوتے

وہ انجمن میں علمَ تو ضرور رکھتے ہیں
مگر حسین سے وہ یم بہ یم نہیں ہوتے

خدا کا شکر ہے ہم عاشقان سرور ہیں
فریب و مکر کے سانچے میں ہم نہیں ہوتے

...
Read More

قاسم سلیمانی۔ تحریر: محمد حسین رہنما

محمد حسین رہنما

بید ہے قاسم سلیمانی ینگلا سلام
ینگ تا شہداءے مندوغی ژھر انمانا
شام نا کوفی شقی کن نا تھن نیار لا ینگ
مثل عباس دلاور نا ژوخ انمانا

کربلا اونگما تسوخ لا چہ توس نن چک اونگس
نسل ابن ذیاد کن سق ینگ لوقسے اونگس
آستانا تا خضراءے شکتوک ذیرے
دی زمانی کھوتنگ لیگی شر این ما نا

دے شقی کونس شامینگ ہلینگ بے بروک
بیونگ ہے قاسم سلیمانی شیرےجری
اذ نجف تادمشق کھونگءی رب چدے
انقلاب ء رگی تا کھو نر ان ما نا

ستونگ سلام دوک لے عاشق لے شیرے جری
لے علی خامناءی منظورے نظر
لے نی ملت کنی سنیگء سترت لے...

Read More

غزل

ویسے تو سارا شہر تھا ان وادیوں کے بیچ
میرا وجود چھپ گیا پرچھایوں کے بیچ

مال و متاع و خون جگر سب تو دے دیا
پھر بھی ہمارا نام رہا باغیوں کے بیچ

ہم کو بتا رہے ہو نزاکت گلوں کی تم
عرصہ گزار آے ہیں رعنایوں کے بیچ

ساری تھکن فشار زہن باپ کی گئی
جیسے ہی گھر میں آیا ہے کلکاریوں کے بیچ

تنہایوں میں لوگ پھسل جاتے ہیں مگر
ملتی ہے راہ راست بھی تنہایوں کے بیچ

وہ جوش و ولولہ و وقار و شعار سب
کیا کھو دیا ہے تم نے انگڑایوں کے بیچ

غیروں سے انس و حسن سلوکی کے درمیان
اپنے بچھڑ چکے تھے مہربانیوں کے بیچ...

Read More

نظم

اگست کے مہینے کی پندرہ جو آی
گاندھی کی محنت بھی ہے رنگ لای


چاروں طرف آج ایسا سماں ہے
شکر اے خدا کہ ترنگا کھڑا ہے


بی اماں کی ممتا وطن سے یہ بولی
یہ شوکت ,محمد ہیں تیرے سپاہی


بھگت سنگھ و بسمل گرو تم ہو بانی
وطن کہ رہا ہے نہیں ہوں گے فانی


سبھاش اور نہرو پٹیل کہ رہے ہیں
وطن ہے امانت تمہیں دے رہے ہیں


فساد اور فتنوں کے رستوں کو چھوڈو
خدا کے لے تم وطن کو نہ توڈو


نہ بھولیں گے ہم تیری دلکش کہانی
لٹاینگے تجھ پر ہم اپنی جوانی


قربان ایک اور جلیان والا
وطن تجھ سے اپنا ہے جنموں کا وعدہ


سن...

Read More

غزل – خاموش بستی

تنِ  تنہا   چہکتا   ہے کسی  خاموش بستی  میں

پرندہ ہے  جو  رہتا ہےکسی  خاموش بستی  میں

کنارہ ہے وہ سورو کا جہاں اُس کا ٹھکانہ ہے

وہ اک دریا جو بہتا ہے کسی خاموش بستی میں

شبِ تاریک میں اٹھکر یہی اب کام ہے اُسکا

کلامِ  میر  پڑھتا  ہے کسی  خاموش  بستی  میں

وہ دوری  اہلِ خانہ سے جدائی اپنے  یاروں کی

الم کیا کیا وہ سہتا ہےکسی خاموش بستی میں

نگاہیں نم دلِ پُرغم کبھی جب ساتھ ملتے ہیں

سخن کا ساز بڑھتا ہے کسی خاموش بستی میں

نظر کس ک...

Read More