لداخ کے بزرگ اور نامور شاعر عبدالحمید تنویر سے روبرو

وائس آف لداخ نے اپنے چودہ روزہ خصوصی پیشکش روبرو کی تیسری قسط میں کرگل کے نامور بزرگ شاعر عبدالحمید تنویر سے روبرو ہوئے ۔آپ 1937 میں کرگل کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے اور بحیثیت اُستاد کرگل کے مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیے۔ زندگی کے دکھ سکھ ، ستم و کرم اور گردش ایام کے دیگر مصائب نے آپ کی زندگی کو بہت متاثر کیا جس کو آپ نے ایک اچھے ادبی قلمکار ہونے کی حیثیت سے شاعری کی زبان میں دنیا کو پیش کیا ۔آپ حسن خان کے بعد کرگل کے دوسرے گریجویٹ رہے ہیں اور پہلا بی ایڈ رہا ہے ۔ فی الحال آپ ضعیفی کی وجہ سے کرگل میں کم اور کشمیر اور جموں میں زیادہ قیام فرماتے ہیں ۔آپ کی وائس آف لداخ کے ساتھ انٹرویو کو یہاں سامعین کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔

سوال : آپ کہاں پیدا ہوئے ،تعلیم کہاں سے حاصل کی اور پیشہ کیا رہا؟

جواب : میں کرگل میں1937 میں  پیدا ہوا ۔ اس کے بعد کرگل  کے میڈل سکول میں داخلہ لیا اور  بعد میں وہ اپگریٹ ہوکر ہائی سکول بنا ۔ 1954 میں میٹرک پاس کیا  اسکے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کشمیر آیا اور وہاں میں نے بی اے اور بی ایڈ کیا ۔ اسکے بعد شعبہ تعلیم  میں بحیثیت استاد کام کیا ۔ 1995  میں بحثیت تحصیل ایجوکیشن افسرریٹائیر ہوا۔

* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *

سوال : ادب اور شاعری میں آپ کو دلچسپی کہاں سے پیدا ہوا ؟  

جواب: ادب و شاعری میں میرا دلچسپی بچپن سے ہی تھا تب میں عام طور پر شاعری کی کتابیں پڑھتا تھا اور ہمارے گھر میں ریڈیو تھا  جس پر مجھے مشاعرے اور شعر سننے کا شوق ہوتا تھا ۔ جب میں کالج میں تھا میرے دوست کرکٹ کھیل رہے ہوتے تھے اور میں لائبریری میں ہوتا تھا جہاں سے میں دوزانہ چھے بجے نکلتا تھا ۔ ان دنوں روزہ ہوتا تھا تو میں بربر شاہ پے ہی روزہ کھولتا تھا ۔ اسی طرح مجھے شاعری میں شوق پیدا ہوا اور تخیلات آنے لگا ۔ اسی طرح میں نے شاعری شروع کیا ۔ خدا کا شکر ہے اس وقت میری کتاب افکار تنویر شایع ہو چکی ہے ۔

لداخ کے مشہور قلم کار عبدالغنی شیخ نے عبدالحمید تنویر کے بارے میں لکھتے ہیں ۔

“اپنے عزیز فرزند زلفی کی شہادت پر عبدالحمید تنویر نے ایک دردناک نظم لکھی ہے۔ اسے سن کر مجھے مرزا غالب کا مرثیہ یاد آیا جو انھوں نے اپنے بھانجے مرزا عارف کی موت پر لکھا تھا۔ زلفی سرینگر کے ایک کالج میں پڑھتا تھا۔ ملی ٹینسی کے دوران بے گناہ مارا گیا۔ تنویر نے جب یہ نظم رائٹرز کیمپ کی ایک بیٹھک میں سنائی تومجلس میں موجود بہتوں کی آنکھیں نم ہوئیں۔ اہل دل شاعر شاہد دیلنوی اپنی آبدیدہ آنکھوں کو پونچھنے لگے نظم کے چند بند ملا حظہ ہوں”:

مجھے جس وقت یاد آتا ہے زلفی
تخیل بن کے چھا جاتا ہے زلفی

کبھی آنکھوں میں چھا جا تا ہے زلفی
کبھی دل میں سما جاتا ہے زلفی

میں جب کرتا ہوں اس خالق کو سجدہ
تصور میں مرے آتا ہے زلفی

فسانہ زندگانی کا سنا کر
حقیقت مجھ کو سمجھاتا ہے زلفی

“تنویر نے کئی بھڑکتے ہوئے اشعار کہے ہیں ۔ ایک غزل کے چند اشعار”

میں کیسے تجھ کو سمجھاؤں کہ میخانہ ہی اچھا ہے
تیری چھلکی ہوئی آنکھوں کا پیما نہ ہی اچھا ہے

حقیقت ایک شے ہے جو حقیقت میں نہیں کھلتی
تو پھر ایسی حقیقت سے تو افسانہ ہی اچھا ہے

چمن میں گل کے مرجھانے پہ بلبل کل غزل خواں تھی
کہ ایسے گلستانوں سے تو ویرانہ ہی اچھا ہے

تنویر صاحب اوپر بیان ہوئے اپنے  اشعار کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”معشوق کی آنکھوں میں دیکھ کر شاعر بڑا پر اثر ہو جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں کسی کو کیسے سمجھا ئوں ،وہ آنکھوں کو میخانہ سے تشبیہ دیتا ہے پیمانہ اور میخانہ میں دامن جولی کا تعلق ہے ۔حقیقت ایک پیمانہ ہے جو حقیقت میں نہیں کھلتی حقیقت یعنی الٹیمیٹ ریالیٹی جو کھلتی نہیں۔ جب حقیقت کھلتی نہیں تو اس سے تو افسانا ہی اچھا ہے ۔

لداخ کے مشہور شاعر الحاج باقر علی باقر نقڈو تنویر صاحب کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

“شهید کربلا امام عالی مقام حضرت حسین کے تئیں خراج عقیدت پیش کرنے کا (تنویر صاحب کا) انداز بھی نرالا ہے ۔”

اس شیر کی جرات سے ہے رن کا عجب عالم
گھٹتا ہے جہاں خون تو بڑھتا ہے وہاں دم

وہ یاں بھی بری ہے جو وہاں بھی بری ہے
یہ ابن علی ابن علی ابن علی ہے

سوال : آپ کی نظر میں اچھی ادب اور اچھی شاعری کیا ہے ؟

جواب: اچھی ادب وہ ہے جو انسان کو اچھی چیز یں سکھاتا ہے ۔میں ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کا خواہش رکھتا ہوں ۔ شاعر وہ ہونا چاہیے جو انسان کو زندگی میں کام آئے ہدایت کرے زندگی میں کیا اور کیسے کام کرنا چاہیے اور اخلاق اور اخلاقی زندگی سے جڑا ہو ۔ادب و شاعری اور اخلاق کا چولی دامن کا فرق ہے بس یہ ہے کہ ہر جگہ ادب برائے زندگی ہونا چاہیے ۔زندگی میں کیا کرے ، کیسے کرے، ملک کی خدمت کیسے کرے ادب میں یہی چیزیں ہونی چاہیے۔

آپ اپنا سب سے پسندیدہ اور ماسٹر پیس شعر سنائیں

تجھے دیکھا ہے میں نے

تجھے دیکھا ہے میں نے آگ میں پانی میں اشکوں کی روانی میں
کلی کی تازگی میں چاند کی چڑھتی جوانی میں

تجھے سورج کی کرنوں میں ہو یدا میں نے دیکھا ہے
تجھے تاروں کی جھرمٹ میں بھی تنہا میں نے دیکھا ہے

ستاروں میں بھی دیکھی ہے رمق تیری چہک تیری
چمن کے پھول میں بھی میں نے دیکھی ہے مہک تیری

تجھے مجنوں کے دیوانہ پن میں میں نے دیکھا ہے
تجھے معصوم لیلی کی بچپن میں میں نے دیکھا ہے

تجھے دیکھا ہے میں نے ہو بہو عاشق کے سینے میں
تجھے دیکھا ہے ہیرے میں تجھے دیکھا نگینے میں

تجھے دیکھا ہے کاشی میں تجھے دیکھا مدینے میں
کلیسا اور مندر میں کبھی مسجد کے زینے میں

کسی نے طور پر دیکھا تو میں نے دل میں دیکھا ہے
جہان رنگ وبو میں میں نے آب و گل میں دیکھا ہے

تجھے رستے میں دیکھا ہے تجھے منزل میں دیکھا ہے
سمندر میں تجھے دیکھا تجھے ساحل میں دیکھا ہے

حسینوں نازنینوں کی اداؤں میں تجھے دیکھا
یتیموں دل شکستوں کی صداؤں میں تجھے دیکھا

غرض وہ کون سی شے ہے کہ جس میں تو نہیں ملتا
تیرے اک اک اشارے سے تو ہے عرش بریں ملتا

تجھے قرآن میں دیکھا تجھے تفسیر میں دیکھا
تجھے تنویر نے بھی صبح کی تنویر میں دیکھا

 سوال: آپ کی اردو بہت اچھی ہے اس کا راز کیا ہے ؟

جو اب :کتابیں پڑھنے سے اور مجھے اُس وقت بہت اچھے استاد ملے ڈاکٹر حمید کشمیری ، ڈاکٹر شکیل الرحمٰن،  الطاف سیفی سو پوری ، غلام حسن انقلابی جو ایس پی کالج میں میرے استاد تھے ۔ میں نے 1961 میں گریجویشن مکمل کیا۔

 سوال : تو آپ کو آزادی کے وقت کا بھی واقعات یاد ہوں گے ؟

جواب : ہاں بہت کچھ یاد ہے ۔ آزادی ملی لوگوں نے خوشیاں منایا اور پھر پاکستان کا حملہ بھی ہوا اور چھ مہینہ تک یہاں رہا پھر ہندوستان نے دوبارہ حملہ کیا اور دوبارہ آ گئے ۔ پھر 1965 میں جنگ ہوئی ۔ جب پاکستان نے پہلی بار حملہ کیا تب بمباری ہوئی اور ہندوستانی فوج بنا کسی مقاومت کے بھاگ گیا بعد میں جب ہندوستانی فوج نے حملہ کیا تو پاکستانی فوج سیدھے بھاگ گئے کوئی ناگفتہ واقعات پیش نہیں آیا ۔

سوال : آزادی سے پہلے حکومت کیسا تھا؟

جواب : اچھا تھا ہری سنگھ کا حکومت تھا جو اس قدر اچھا تو نہیں تھا لیکن ٹھیک تھا ۔ اُس وقت کرگل میں ایک مڈل سکول تھا باقی کچھ پرائمری اسکول تھےجو سانکو، شکر چکتن، حقنس، پشکم ، اور دراس میں واقع تھے۔ درس و تدریس اردو میں ہوتا تھا  ۔

سوال : لداخ خاصکر کرگل میں اردو اور بلتی ادب کے فروغ کے لیے کیا کام کرنے کی ضرورت ہے ؟

جواب : یہ دونوں زبانیں لوگوں کو سکھانے کی ضرورت ہے اور ہمیں محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ادب کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور سکھانا ہے ۔ ادب کے لیے مشاعرے اور پینل ڈسکشن کرنے کی ضرورت ہے ۔ سمینار اور فنگشن ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو ادب کی طرف شوق بڑھے ، تاکہ ہمارے جوان ادب کی طرف راغب ہو ۔

سوال : آپ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ جو ہمیشہ آپ کے ذہن کا ساتھی رہا ہو۔

جواب : میں شاعری کرتا رہتا تھا ۔ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک مشاعرے  میں حصہ لے رہا ہوں تو اینونسر نے کہا کی اس مشاعرہ میں محترمہ یاسمین آصف صدارت کریں گی اور میری بھتیجی یاسمین صدارتی کرسی پر بیٹھی تھی۔ میں حیران ہوتا ہوں کی اس کا نام آصف کہاں سے پڑھا ،اس کے باپ کا نام تو غلام ہے اگر شوہر کے ساتھ مناسبت کریں تو ابھی شادی شدہ نہیں ہے ،ابھی چھوٹا ہے ۔ تو میں نے خواب میں شاعری کیا اور یہ مصرعہ پڑھا ۔

میں کیسے تجھ کو سمجھاؤں کہ میخانہ ہی اچھا ہے

یہی مصرع میری آنکھوں میں گونج رہا تھا اور میں نے دوسرا مصرع لکھا :

تیری چھلکی ہوئی آنکھوں کا پیمانہ ہی اچھا ہے

اس کے 9 سال بعد میری بھتیجی کی شادی ہوگئی اس کے شوہر کا نام آصف تھا ۔ یہ مجھے ہر وقت یاد آتا ہے ۔

سوال : پورے کرگل میں آپ کو کیا چیز سب سے اچھا لگتا ہے ؟

جواب : لوگوں کا سادہ پن اچھا لگتا ہے سیدھے سارھے ہیں لوگ ہر ایک ہمارا ساتھ دیتا ہے ۔ ہمارے دادا کشمیر سے گئے وہاں اور لوگوں کا اخلاق دیکھا تو وہیں پر سکونت اختیار کی ۔وہ دو بھائی تھے عزیز منشی اور امیر منشی۔ وہ رنبیر سنگھ کے دور میں ملازم تھے ۔

سوال : آپ کرگل میں لوگوں کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب: تعلیم حاصل کرو ہماری تمام مشکلوں کا حل جو ہے وہ تعلیم ہے ۔ اُس سے ہر فرد ترقی کریں گے اور قوم بھی ترقی کرے گا ۔ فرد فرد کی ترقی قوم کی ترقی ہے۔

0 Comments

Leave a Reply

XHTML: You can use these tags: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>