یکم جنوری سے سگریٹ، نسوار کی فروخت کےلئے لائسنس لازمی

گلگت/ایجنسیز/نارکوٹکس کنٹرول اور سماجی تنظیم سیڈو کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں روزانہ 1 کروڑ 35 لاکھ کا تمباکو استعمال ہوتا ہے جس کا سالانہ تخمینہ پونے پانچ ارب سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ جس سے تمباکو کی ابھرتی ہوئی مصنوعات کے استعمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

گلگت بلتستان تمباکو ایکٹ 2020کے تحت یکم جنوری 2024سے لائسنس کے بغیر سگریٹ اور نسوار فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

نارکوٹکس کنٹرول و ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے انسپکٹر عدنان غازی نے سماجی تنظیم سیڈو کے منیجر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن زوہیب اختر کے ہمراہ سنٹرل پریس کلب گلگت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں حکومت نے گلگت بلتستان تمباکو ایکٹ 2020 جی بی اسمبلی سے پاس کیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے تمباکو کی مصنوعات کی غیر قانونی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے جس میں سمگل سیگریٹ وغیرہ شامل ہیں۔

* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *

اس ایکٹ کے ذریعے نسوار کی تیاری اور تمباکو کی دیگر مصنوعات کی خرید و فروخت کے لئے لائسنس کا اجراءکیا جانا ہے جس پر چند روز قبل محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے لائسنس کے حصول و اجراءکے لئے لیٹر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس کے تحت یکم جنوری 2024 سے قبل نسوار اور سگریٹ فروخت کرنے والے دکانداروں کو لائسنس لینا لازمی قرار دیا گیا ہے اور نسوار کو پلاسٹک کی تھیلیوں کی بجائے ڈبیوں میں پیک کرکے لازمی طور پر ہیلتھ وارننگ تحریر کرنا ہوگا۔ جبکہ ہیلتھ وارننگ کے بغیر سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی عائد ہوگی۔

اس موقع پر سماجی تنظیم سیڈو کے منیجر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن زوہیب اختر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں منشیات اور بلخصوص تمباکو کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ 2016-2017 میں یونیسیف اور پی اینڈ ڈی نے ملٹی انڈکیٹر سروے جس کو (مکس) بھی کہا جاتا ہے کے نام سے ایک سروے کروایا تھا جس کے مطابق گلگت بلتستان میں 37.6 فیصد لوگ تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جو کہ 18 لاکھ آبادی کے تناسب سے 675000 (پونے سات لاکھ) کی تعداد ہوتی ہے۔ اگر اوسطاً ایک فرد روزانہ 20 روپے کا تمباکو استعمال کرے تو روزانہ 1 کروڑ 35 لاکھ کا تمباکو استعمال ہوتا ہے جس کا سالانہ تخمینہ پونے پانچ ارب سے بھی زیادہ بنتا ہے۔

سماجی تنظیم سیڈو نے 2018 میں “تمباکو کے دھویں سے پاک گلگت بلتستان” کے عنوان سے اپنے پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد نوجوانوں کو منشیات اور تمباکو سے دور رکھنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تمباکو مافیا نے ایسے میں اپنی نئی منصوعات جن کو ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ کہا جاتا ہے مارکیٹ میں متعارف کرائی ہیں۔ ان مصنوعات میں ای سیگریٹ، ویپنگ سیگریٹ، ویلو اور دیگر مصنوعات شامل ہیں۔ ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹس آج کل ہر دکان میں دستیاب ہیں جن میں ویلو جو کہ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی تمباکو اشیاءہے جس کا استعمال انتہائی خطرناک ہے۔

یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس کی طرف راغب ہو رہی ہیں۔ یونیسیف اور پی اینڈ ڈی نے 2018 میں ایک سروے کروایا تھا اس سروے کے مطابق 2.5 فیصد طالبات تمباکو کا استعمال کر رہی تھیں اور اب یہ تناسب 16.5 فیصد سے بڑھ گیا جس کی وجہ تمباکو کی نئی مصنوعات کا مارکیٹ میں دستیاب ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کل تمباکو مافیا نوجوان نسل کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے اور اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمباکو مصنوعات ان علاقوں میں یقینی طور پر دستیاب ہوتی ہیں جہاں نوجوان موجود ہوتے ہیں جیسے سکول، کالجز ، یونیورسٹیز ، کھیلوں کے میدان اور پارکس ہوں۔

گلگت بلتستان تمباکو ایکٹ 2020 میں ترامیم کے ذریعے تمباکو کی نئی مصنوعات کے استعمال کو روکا جائے اور اس پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی جائے تاکہ ہماری آنے والی نسل منشیات اور تمباکو جیسی لعنت سے دور رہ سکے کیونکہ تمباکو کا استعمال منشیات کی طرف راغب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے۔

انہوں نے امید کا اظہار کیا ہے اس سلسلے میں میڈیا برادری بھی اپنا کردار ادا کرے گی اور گلگت بلتستان تمباکو ایکٹ 2020 میں ترامیم کرانے کے لئے ہماری آواز بنے گی اور گلگت بلتستان کے نوجوان نسل کو اس لعنت سے دور رکھنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے گی۔

0 Comments

Leave a Reply

XHTML: You can use these tags: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>