سماج کی پیش رفت کا واحد حل رشوت خوری کاقلعہ قمع

ضمیر کی آواز – طاہر حسین

اللہ تعالی نے عالم کائنات میں بنی نوع انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیکر وجود میںلائے ہیں۔لیکن یہ شرف ایسے انسانوں کو حاصل ہے جو انسانیت کی راہ پر چلے۔انسانیت کا اصول یہ ہے کہ انسان سماج اور معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوی حقوق کی آبیاری کرے سماجی اور معاشرتی مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں پیش پیش رہے۔ایک دوسرے کی دکھ رد اور غم ومصیبت کو بانٹیں ،بے بس اور مجبور انسانوں کو مدد بہم پہنچائیںظلم وجبر اور استبداد کے خلاف آواز اٹھائیں اگر کوئی انسان خود غرضی اور مفادپرستی میں مبتلاءرہے تو ایسے انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔کیونکہ خود غرض اور شکم پرستی حیوانوں کی فطرت ہے۔اگر انسان انسانیت کی راہ ترک کرکے حیوانیت کی راستے پر چلے تو دین وایمان سے انحراف ہونایقینی ہے۔آج ہمارے سماج ومعاشرے میں لوگ اپنی جائز یا ناجائیز مقاصد کیلئے اہل منصب کو رشوت پیش کرکے انصاف اور میرٹ کا خون کرتے ہیں موجود ہ دور میں اس لین دین کو چائے پانی ،کمیشن اور حق زحمت کا نام دیتاہے درحقیقت یہی رشوت ہے۔اسلام کی نظر میں جس طرح رشوت دینے اور لینے والا ملعون اور دوزخی ہے اس طرح اس کے لین دین کرنے والا بھی ہے۔حقوق العباد میںکوتاہی جس گناہ کبیرہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے مثلا نماز ،روزہ ،زکاة حج وغیرہ کی ادائیگی سے غفلت خداوند کریم سے سچی توبہ کرنے پر معاف فرمائیں گے لیکن اگر گنا ہ حقوق البشر سے تعلق ہو مثلا حق تلفی ،نا انصافی ،رشور ت خوری اور خیانت کار لوگوں کا گناہ کبھی معاف نہیں کیاجائے گا۔عصر حاضر میں ہمارے سماج اور معاشرے میں رشوت خوری اور بدعنوانی کے ایسے خبیث مثالیں پنب رہے ہیں جیسے اپنی بچوں کو امتحان میں رشوت دیکر نقل پاس کرنا ،اپنی بچوں کیلئے پیسے دیکر فراڈ کے سرٹفکیٹ اور ڈگری حاصل کرنا ،رشوت دیکر اپنے بچوں کو نوکری حاصل کرنا ،اپنی کرسی کیلئے رشوت دیکر ووٹ حاصل کرنا،اپنی دنیاوی فائدے کیلئے دوسروں پر تہمت اور الزام لگانا،عوام الناس کے حقوق پر شب خون مارنے جیسے گناہوں میں ملوث لوگوں کو توبہ و استغفار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ایسے انسانوں کو رزق حلال نصیب نہیں ہوتے البتہ دنیا میں چند دن عیش و آرام کی زندگی تو بسر کرسکتی ہے لیکن ان کی عاقبت خسارے میں ہے۔مادہ پرستی و تسکین خواہشات اور دوسروں کو نیچا دکھانا غیر انسانی سوچ کی پیداوار ہے دورہ حاضر میں ہمارے حالات یہ ہے کہ ہم عملی زندگی میں بلکل ناکام ہوچکی ہے۔ہمارے علماءمقتدر ،رہبران اساتذہ ،دانشور ،قلم کار اور ہمارے امراءوعوام خود کو زمانے کے غیر فطری لیکن خود اختیار کردہ رو کے ساتھ بہتے چلے جارہے ہیں۔یہ ہمارا اور آپ کا پیدا کردہ وہ معاشرہ ہے جس میں قدم قدم پر جھوٹ بے ایمانی ،فریب ،بدعنوانی ،کالا بازاری ،لوٹ کھسوٹ ،استحصال اور خرمستی کا ماحول بنا ہواہے۔اس طرح کے صورت حال انتہائی سنگین اور باعث تشویش ہے۔رشوت خوری تمام گناہوں کا سرچشمہ ہے جب تک نہ سماج اور معاشرے سے رشوت خوری کاقلعہ قمع نہ ہو ایک پاک و پاکیزہ اور صاف و شفاف قوم کی تعمیر وترقی ممکن نہیں لہذا ہر حال میں اور ہر صورت میں رشوت خوری سے اجتناب کرنا لازمی ہے کہتے ہیں علماءوراثت انبیا ءؑ ہے اگر حقیقی معنوں میں علماءوراثت انبیاءہیں تو انکو ممبروں کے اوپر سے لقلقہ زبان پر چند کلمات کہنے پر اکتفاءنہیں کرنا چاہئے بلکہ پیشہ پیغمبری اور ائمہ معصومین ؑ کے اصولوںکو اپناتے ہوئے عملی میدان میں اتر کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔جیسے مذہبی اجتماعات میںسرکاری اور اسلامی سمیناروں میں فاتحہ خوانی کے مجلسوں میں ،سکولوں اور کالجوں میں ،یونیورسٹیوں میں ،مکتبوں اور سرکاری دفتروں میں اور گھرگھر جاکر فرد فرد کو اس فعل حرام سے چٹکارہ پانے کیلئے ایک زور دار مہم چلانے کی ضرورت ہے۔البتہ راشی لوگوں کو جو اس فعل بد کا عادی ہوچکے ہیں اس بدعت سے چٹکارا پانا بہت ہی مشکل ہے لیکن ہمارے آنے والے نسل ہمارے بچے ،طالب علم جن کا دل ہر برائیوں سے پاک ہے وہ اس فعل بد سے ضرور اجتناب کریں گے۔ضلع کرگل ایک اسلامی معاشرہ ہے اور اس ضلع میں اپنی چنی ہوئی نمایندوں کا کونسل بنی ہوئی ہے۔اگر ہل کاونسل کرگل رشوت خوری پر قد غن لگانے کیلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے تو کافی حد تک رشوت خوری پرقابو پایا جاسکتاہے۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہل کاونسل کرگل کا قیام عرصہ بیس سال ہونے کوہے لیکن آج تک ہل کاونسل کرگل نے رشوت خوری اور بد عنوانی کے سد باب تلاش کرنے کی سعی نہیں کی ہے۔بلکہ جب سے یہ کونسل وجود میں آئی تب سے رشوت خور اور بدعنوان لوگ دن بہ دن مضبوط اور طاقت ور ہوتے جارہے ہیں ان کے حوصلے روز بروز بلند ہوتی جارہی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ جب انسان حرام خوری اور مفت خوری میں مبتلاءہوجاتی ہے تو انکا دل قساوت قلب سے کالے ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کو صرف جائیداد کرسی اور پیسے کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتی۔رشوت خور اور منافق لوگوں کا تو دین و ایمان سے کوئی سروکار نہیں ہوتی۔تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو روشن ہیں اسلام پر سب سے بڑی جو کاری ضرب لگائی ہے جن میں رشوت خور منصب پرست ،عہدشکن ،منافق اور خیانت کار لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔اگر تاریخ کربلاءپر غور کریں تو عیاں ہوتاہے کہ ایسے ہی لوگوں کا ہاتھ انبیائے کرام اور ائمہ معصومین ؑکے خون سے رنگے ہوتے ہیں۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سماج کے ہر زی شعور انسان کو معاشرے میں پلتی برائیوں کے سد باب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔تاکہ ہمارے آنے والے نسل ان برائیوں سے نجات پاسکے۔

0 Comments

Leave a Reply

XHTML: You can use these tags: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>